✍️ تحریر: قاضی علی عباس

دنیا کی تاریخ میں ظلم و ستم کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں، لیکن فلسطین کا المیہ نوعیت میں منفرد اور الم انگیز ہے۔ یہ صرف زمین کے ایک ٹکڑے کا مسئلہ نہیں، یہ انسانیت کا سوال ہے جو آج بے حس، بے صدا اور بے اختیار دکھائی دیتی ہے۔ یہاں نہ صرف حقوق پامال ہو رہے ہیں، بلکہ امیدیں، نسلیں، اور انسانیت کے اصول دفن ہو رہے ہیں۔
یہ لمحہِ فکریہ ہے کہ کیا یہ قضیہ صرف فلسطین اور اسرائیل کا ہے؟ کیا اس کا درد صرف مسلمانوں تک محدود ہے؟ یا یہ زخم پوری انسانیت کے چہرے پر ہے، جسے ہم نظر انداز کرنے کی سنگین غلطی کر رہے ہیں؟—
فلسطینی قوم: صبر کی انتہا، جبر کی انتہائی۔
فلسطینی عوام پچھلی کئی دہائیوں سے ظلم، بمباری، جبروتشدد اور بنیادی انسانی ضروریات سے محرومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔وہ بچے جن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہونی چاہیے تھی، خوف اور خاموشی کے سائے میں پل رہے ہیں۔
وہ مائیں جنہیں امن کی آغوش دینی تھی، آج قبروں کے کتبے تھامے بیٹھی ہیں۔وہ بزرگ جنہوں نے آزادی کے خواب دیکھے تھے، اپنی نسلوں کو بربادی میں جھونکتا دیکھ رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی “کھلی جیل” قرار دیا جا چکا ہے۔یہاں اسکول، ہسپتال، عبادت گاہیں اور حتیٰ کہ امدادی مراکز بھی محفوظ نہیں رہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں آواز بلند کرتی ہیں، مگر طاقتور اقوام کے مفادات ان کی زبانوں پر قفل ڈال دیتے ہیں۔
–اسرائیلی اقدامات: طاقت کی نمود یا اخلاقی دیوالیہ پن؟
اسرائیل کی یہ دلیل کہ وہ اپنے دفاع میں کارروائی کرتا ہے، عالمی ضمیر کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔دفاع کے نام پر بچوں کی نسل کشی، شہریوں پر حملے، اور اسپتالوں کی تباہی وہ دلائل ہیں جو تاریخ میں کسی مظلوم کے نہیں، جابر کے حصے میں آتے ہیں۔دنیا کے بیدار ضمیر لوگ اسرائیل کی جارحیت کو ظلم تصور کرتے ہیں۔ہر نیا حملہ اس کے لیے مزید بدنامی کا باعث بنتا ہے۔
اس کے معاشی بائیکاٹ کی تحریکیں، عالمی سطح پر احتجاج، اور میڈیا پر انسانی حقوق کی بازگشت اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل کا ہر نیا وار اس کی اخلاقی شکست کی صورت میں ابھرتا ہے۔–
-ایران کا ردعمل: ایک پیغام، ایک سوال
ایران نے عملی طور پر اسرائیل کے خلاف ردعمل دے کر امت مسلمہ کو ایک پیغام ضرور دیا — کہ خاموشی کے بجائے جرأت اور عمل کا راستہ بھی موجود ہے۔چاہے وہ ڈرون حملے ہوں یا مزاحمتی گروہوں کی حمایت، ایران کا یہ کردار محض سیاسی نہیں، ایک غیرت مند ریاست کے طرزِعمل کی جھلک بھی ہے۔
تاہم یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ایران کے اقدام میں علاقائی سیاست، اثر و رسوخ کی خواہش، اور قیادت کے امکانات بھی کارفرما ہیں۔لیکن اس کے باوجود، اس اقدام نے مسلمانوں کو یہ سوچنے پر ضرور مجبور کر دیا ہے کہ فلسطین کی حمایت صرف تقریر سے نہیں، عمل سے ممکن ہے۔
—جنگ کا دائرہ: اثرات صرف اسلامی دنیا تک محدود نہیں
یہ سمجھنا اہم ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کی کشیدگی صرف مسلم مسلکی کا مسئلہ نہیں بلک اس کے اثرات عالمی سطح پر مرتب ہوتے ہیں:
- تیل کی قیمتوں میں اضافے
مشرق وسطی میں کشیدگی عالمی منڈی کو متاثر کرتی ہے، جس کے نتیجے میں مہنگائی اور غربت بڑھتی ہے۔
- عالمی معیشت پر دباؤ:
غیر یقینی حالات سرمایہ کاروں کو بے یقینی میں مبتلا کرتے ہیں، مارکیٹس گر جاتی ہیں۔
- ترقیاتی میدان کی پسپائی:
دفاعی اخراجات میں اضافہ دیگر اہم شعبوں جیسے تعلیم، صحت اور سائنس کو متاثر کرتا ہے۔
- خوراک و رسد میں رکاوٹ:
جنگی حالات عالمی رسد کو متاثر کرتے ہیں، جس کا خمیازہ افریقہ، ایشیا اور یورپ تک بھگتنا پڑتا ہے۔
مگر سوشل میڈیا نے ان کی یہ دیواریں ہلا دی ہیں۔آج ایک عام انسان بھی جانتا ہے کہ ظالم کون ہے، مظلوم کون۔
—امت مسلمہ کی خاموشی: باعثِ افسوس مسلم
مسلم دنیا کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں۔تیل، گیس، فوجی طاقت، افرادی قوت، میڈیا — سب کچھ موجود ہے، سوائے عملی اتحاد اور قیادت کے۔
ادارے صرف اجلاس منعقد کرنے اور مذمتی بیانات دینے تک محدود ہو چکے ہیں۔ان کی عملی قوت صفر، اور سفارتی اثر محدود ہو چکا ہے۔
—اگر ایک دن مسلمان متحد ہو جائیں؟
اگر صرف ایک دن مسلمان اپنے تمام تر ذاتی، فرقہ وارانہ اور سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر فلسطین کے لیے متحد ہو جائیں، تو:
اسرائیلی مصنوعات کا عالمی بائیکاٹ ممکن ہے
سفارتی دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے
عالمی ادارے اپنے مؤقف پر نظر ثانی پر مجبور ہو سکتے ہیں
انسانی امداد اور دفاعی حمایت فلسطینی عوام تک پہنچائی جا سکتی ہے
مسلمانوں کے پاس دنیا کی سب سے بڑی نوجوان آبادی، وسائل، علم، اور تمدنی سرمایہ موجود ہے — کمی صرف یقین، قیادت اور عمل کی ہے
۔—اختتامیہ: ظالم کا انجام یقینی ہے
تاریخ کا فیصلہ واضح ہے — ظلم ہمیشہ ہارتا ہے، اور مظلوم کی آہیں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔فلسطین کے معصوم بچوں کا خون، ماؤں کی آہیں، اور شہداء کی قربانیاں ایک دن رنگ ضرور لائیں گی۔اسرائیل کے پاس اسلحہ ہو سکتا ہے، مگر وہ ضمیر کی جنگ ہار چکا ہے۔ہمیں اب خاموش نہیں رہنا۔قلم اٹھانا ہوگا۔آواز بلند کرنی ہوگی۔اور ہر ممکن محاذ پر مظلوموں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا۔
کیونکہ یاد رکھیں:خاموشی بعض اوقات ظلم کا سب سے خطرناک ساتھ بن جاتی ہے۔
aliabbasqazi102@gmail.com
For whatapp : 03172084137

Дизайнерская мебель премиум класса — это воплощение изысканного стиля и безукоризненного качества.
Выбор дизайнерской мебели требует особого подхода. Советы профессионалов могут значительно упростить процесс выбора. Важно помнить, что дизайнерская мебель должна не только выглядеть хорошо, но и быть комфортной в использовании.