ڈاکٹر عبدالقدیر خان ۔تحریر قاضی علی عباس

ڈاکٹر عبدالقدیر خان — ایک محبِ وطن مسلمان کا روشن چراغ

✍️ تحریر: قاضی علی عباس

جب بھی کسی قوم کی بقا، وقار اور خودمختاری کی بات ہوتی ہے، تو تاریخ اپنے صفحات میں ان ہستیوں کو سنہری الفاظ سے یاد رکھتی ہے جنہوں نے اپنے علم، خلوص اور قربانی سے ایک کمزور قوم کو عزت کا تاج پہنایا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان — یہ نام صرف ایک سائنس دان کا نہیں، بلکہ ایک نظریہ، ایک وفاداری اور ایک اسلامی غیرت کا عنوان ہے۔

ڈاکٹر صاحب نہ صرف پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی تھے بلکہ ایک ایسے انسان تھے جن کے دل میں اُمتِ مسلمہ کے لیے درد، اپنے وطن کے لیے بے مثال محبت، اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا گہرا جذبہ موجزن تھا۔ ان کی شخصیت ایک بلند مینار کی مانند تھی جو ہمیں علم، ہمت، اور خودداری کا سبق دیتی ہے۔


تعلیم و شعور کا سفر

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جرمنی، ہالینڈ اور بعد ازاں بیلجیئم سے تعلیم حاصل کی، مگر اُن کا دل ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دھڑکتا رہا۔ جب انہوں نے بھارت کا ایٹمی تجربہ دیکھا تو دل تڑپ اُٹھا۔ وہ چاہتے تو یورپ میں پر سکون زندگی گزار سکتے تھے، مگر وہ اپنے رب کے سامنے جواب دہ تھے، اور اُمتِ مسلمہ کے ایک سپاہی کی حیثیت سے اُنہوں نے اپنے علم کا رخ وطن کی جانب موڑ دیا۔


خدمت، قربانی اور خاموشی

پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے وہ سب کچھ قربان کیا جو ایک دنیاوی شخص کے لیے قیمتی ہوسکتا ہے: شہرت، آرام، وقت اور حتیٰ کہ اپنی ذاتی زندگی بھی۔ وہ دن رات کام کرتے رہے، بے نیازی سے، بغیر کسی صلے کے۔ انھوں نے نہ کسی انعام کی طلب کی، نہ کسی خطاب کی ہوس رکھی — ان کا اصل انعام رب کی رضا اور ملت کی بقاء تھی۔


ایمان سے لبریز سائنسی سوچ

ڈاکٹر عبدالقدیر خان سائنس کو صرف مادی ترقی کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا یقین تھا کہ علم، اگر اللہ کی خوشنودی اور اُمت کی خدمت کے لیے استعمال ہو، تو وہ عبادت بن جاتا ہے۔ وہ اکثر فرمایا کرتے:

“ہم نے بم نہیں بنایا، ہم نے اپنی قوم کے تحفظ کا ایک ذریعہ تیار کیا۔ ہمارا مقصد خوف نہیں، دفاع ہے۔”

یہی اسلامی روح ان کے ہر عمل میں جھلکتی تھی۔


دشمنوں کی سازشیں اور استقامت

جب عالمی قوتوں نے اُن کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کی، انہیں نظر بند کیا گیا، تو اُنہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی پاکستان کی عزت پر آنچ نہ آنے دی۔ وہ صبر کے ساتھ خاموش رہے، اور اپنے رب کے فیصلے کو قبول کیا۔ ان کی یہ استقامت ہمیں حضرت یوسفؑ کی یاد دلاتی ہے — کہ جب بے قصور ہو کر بھی صبر کا دامن تھاما جائے، تو انجام عزت ہی ہوتا ہے۔


ایک مسلمان کی طرح زندگی، اور ایک ولی کی طرح رخصتی

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نماز جنازہ میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اس بات کا گواہ ہے کہ قوم ان سے بے حد محبت کرتی تھی۔ انہوں نے دنیا کو الوداع کہا، مگر دلوں میں زندہ رہے۔ نہ ان کے نام کی تختی باقی ہے، نہ ان کے اعزازات کی فہرستیں — باقی ہے تو صرف ان کا اخلاص اور اُن کی وہ دعائیں جو ہر پاکستانی بچے کی زبان پر ہیں:

“اللہ ڈاکٹر صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے!”


قاضی علی عباس (قازم حرف) کی دعا

ایک لکھاری ہونے کے ناطے جب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر لکھا، تو میری انگلیاں نہیں، میرا دل لکھ رہا تھا۔ وہ شخص جس نے بغیر جنگ کے دشمن کی نیندیں حرام کر دیں، وہ میرے قلم کا محبوب ہے، میری قوم کا ہیرو ہے۔ میری دعا ہے کہ ہمارے نوجوان ان کے کردار سے سیکھیں، ان کی مانند علم کو عبادت بنائیں، اور وطن کے لیے وہی جذبہ لائیں۔

aliabbasqazi102gmai.com

For Whatapp: 03172084137

qaziwrites55.com

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *