آخر سیاست خدمت ہے یا تجارت؟۔ قاضی صاحب

تحریر: قاضی علی عباس

سیاست ایک ایسا لفظ ہے جو سماعت سے ٹکراتے ہی ذہن میں کئی فکر نمایاں کرتا ہے۔ کبھی یہ لفظ امید کی روشنی دکھاتا ہے، تو کبھی مایوسی کی گہری کھائی میں دھکیل دیتا ہے۔ کبھی یہ خدمت کا علم بردار محسوس ہوتا ہے، تو کبھی اسے منڈی کی دکان بنا دیا جاتا ہے جہاں وعدے بکتے ہیں، بیانات کی نیلامی ہوتی ہے، اور ضمیر گروی رکھے جاتے ہیں۔ سیاست، جو کہ بظاہر عوام کی نمائندگی اور فلاح و بہبود کا ذریعہ ہونی چاہیے، رفتہ رفتہ ایک ایسی تجارت بن گئی ہے جس میں نفع و نقصان کا حساب کتاب، خدمت پر غالب آ گیا ہے۔

سیاست کا اصل چہرہ: خدمت

اگر ہم سیاست کے بنیادی تصور کی بات کریں تو اس کا مرکز و محور عوام کی خدمت اور بھلائی ہے۔ فلسفۂ سیاست ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ حکمرانی ایک امانت ہے، اور اقتدار صرف اس شخص کا حق ہے جو اہل ہو، خادم ہو، نیک نیت ہو۔ تاریخ کے اوراق میں ہمیں وہ کردار ملتے ہیں جنہوں نے سیاست کو اپنا ذاتی فائدہ نہیں بلکہ عوام کی خدمت کا ذریعہ بنایا۔

ایسی سیاست میں عوام کے دکھ درد کو محسوس کیا جاتا ہے۔ حاکم اور رعایا کا تعلق حاکم و محکوم کا نہیں بلکہ خادم و مخدوم کا ہوتا ہے۔ عوامی مسائل، تعلیم، صحت، عدل، روزگار اور فلاح و بہبود ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جاتے ہیں۔ جلسوں میں نعرے نہیں لگتے، عمل ہوتا ہے۔ اقتدار میں آکر چہروں کا رنگ نہیں بدلتا، بلکہ ان کے قدموں میں عاجزی اور زبان میں سچائی کا عطر جھلکتا ہے۔

۔سیاست کا بدلا ہوا چہرہ: تجارت

لیکن افسوس کہ یہ تصویر اب دھندلا گئی ہے۔ سیاست کا چہرہ بدل چکا ہے، اور اس میں خدمت کا رنگ ماند پڑ چکا ہے۔ آج کے سیاسی بازار میں کرداروں کے دام لگتے ہیں۔ سیاستدان، عوامی نمائندے کم ۔ اور بزنس مین زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ وہ انتخابی مہم کو کاروباری مہم کے طور پر چلاتے ہیں — سرمایہ لگاتے ہیں، اور پھر اقتدار میں آ کر اس پر منافع کمانے کے درپے ہوتے ہیں۔یہ تجارت صرف دولت کی نہیں، ضمیر کی بھی ہے۔ سچ بولنا نقصان دہ، اور جھوٹ مصلحت بن گیا ہے۔ وعدے صرف اشتہار ہوتے ہیں، جو الیکشن ختم ہوتے ہی کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ نظریات کی قیمت لگتی ہے، جماعتیں تبدیل ہوتی ہیں، اور وفاداریاں اس ہوٹل کی میز جیسی ہیں جہاں صرف وقت کے مطابق بیٹھک بدلتی ہے۔

اقتدار کا نشہ: خدمت کی قبر

اقتدار وہ نشہ ہے جو نہ صرف آنکھوں سے بینائی چھینتا ہے بلکہ دل سے رحم، دماغ سے دانشمندی، اور زبان سے سچ بھی چرا لیتا ہے۔ جو لوگ سیاست میں تبدیلی لانے کے ارادے سے داخل ہوتے ہیں، وہ اکثر خود اس نظام کا ایندھن بن جاتے ہیں۔خدمت کے خواب دیکھنے والے جب اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں تو ان خوابوں کی تعبیر کرسی بن جاتی ہے، اور عوام کی فلاح محض تقریروں کی حد تک محدود ہو جاتی ہے۔

عوام کا کردار: تماشا یا فیصلہ؟

اگر سیاست تجارت بنی ہے تو اس میں صرف سیاستدان ہی قصوروار نہیں۔ عوام کا بھی کردار ہے۔ وہی عوام جو نعرے لگاتے ہیں، جلسوں میں شرکت کرتے ہیں، اور چند کلو آٹے، ایک چمچ شکر یا وعدوں کے فریب میں ووٹ دیتے ہیں۔ وہی عوام جو بار بار ایک جیسے چہروں کو چنتے ہیں، اور پھر پچھتاتے ہیں۔عوام اگر ووٹ کو ذمہ داری سمجھ کر دیں، اور اگر تعلیم اور شعور کو اپنا ہتھیار بنائیں، تو سیاست کی سمت درست ہو سکتی ہے۔ مگر جب تک عوام خود بیدار نہ ہوں، یہ گلا سڑا نظام بدستور چلتا رہے گا۔

سیاسی تربیت اور اخلاقیات کی ضرورت

ہمارے یہاں سیاست سکھائی نہیں جاتی، بلکہ جھوٹی چالاکی، چالبازی اور نعرہ بازی کو سیاسی ہنر مانا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی نسل کو بتایا جائے کہ سیاست کا مطلب سازش نہیں، خدمت ہے۔سیاسی کارکن بننے سے پہلے انسان بننا ضروری ہے۔ سیاستدان کا اعلیٰ کردار، نرم گفتاری، سچائی اور دیانتداری ہی اصل سرمایہ ہیں۔

امید کی کرن۔

اگرچہ تصویر کا ایک رخ تاریک ہے، مگر دوسرے رخ پر روشنی کی کرنیں بھی موجود ہیں۔ آج بھی کچھ چہرے ایسے ہیں جو خاموشی سے کام کر رہے ہیں، جن کے ہاتھ صاف اور ارادے نیک ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان چہروں کو پہچانیں، ان کی قدر کریں، اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔

نتیجہ: سیاست —جیسی نیت ویسا نظام۔

آخر میں سوال یہ ہے کہ سیاست کیا ہے؟ خدمت یا تجارت؟

تو جواب یہ ہے کہ سیاست وہی ہے، جو نیت ہے۔اگر نیت خدمت کی ہو تو سیاست اکمل و اعلی پیشہ ہے،اور اگر نیت تجارت کی ہو تو پھر سیاست ضمیر فروشی کا بازار ہے۔قوموں کی ترقی یا بربادی، سیاست کے کردار سے جڑی ہوتی ہے۔ اگر ہم تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں سیاست کو خدمت کی راہ پر واپس لانا ہوگا، بصورتِ دیگر یہ تجارت قوم کا سودہ کرتی رہے گی، اور ہم تماشا دیکھتے رہیں گے۔

aliabbasqazi102@gmail.com

For what app: 03172084137

3 thoughts on “آخر سیاست خدمت ہے یا تجارت؟۔ قاضی صاحب”

  1. دور حاضر کی تماشا دار زندگی کے تقاضوں میں سیاست کے حقیقی معنی سمجھنے میں جہاں معاونت کے ساتھ ذہنی سکون پایا اس کا راستہ محض آپ کی تحریر ہے ۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *